Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”شیری… شیری، کہاں گم رہنے لگے ہیں آپ؟“ مسز عابدی اس کو پکارتی ہوئیں روم میں آئی تھیں وہ خاموش بیٹھا ہوا فانوس کو تک رہا تھا اس کے انداز میں وحشت آمیز بے گانگی تھی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر وہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی تھیں۔
”شیری! کیا ہوا ہے آپ کو یہ کیا حالت بنا رکھی ہے طبیعت تو ٹھیک ہے میری جان۔“ وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پریشانی سے گویا ہوئی تھی جب کہ شیری اسی طرح بیٹھا رہا نہ ماں کے احترام میں اٹھا نہ ہی رخ بدلا تھا۔
عجیب بیگانگی تھی اس کے انداز میں گویا سوچنے سمجھنے سے عاری ہو۔
”میں ٹھیک ہوں، کیا ہوگا مجھے مما۔“
”آپ ٹھیک نہیں ہیں، کوئی ڈپریشن ہے؟“
”کیا آپ دور کر سکتی ہیں میرے ڈپریشن؟“ وہ جھنجلا کر گویا ہوا۔
”ڈاکٹر کو کال کرتی ہوں ابھی۔


“ وہ سراسیمہ ہو کر اٹھیں۔

”بیٹھ جائیں مما! مجھے کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے۔
”لیکن آپ کی کنڈیشن نارمل نہیں ہے شیری میں تو آپ سے یہ کہنے آئی تھی کہ فیاض بھائی کے ہاں چلتے ہیں، عائزہ کی شادی کے بعد سے ایک بار بھی وہاں جانا نہیں ہوا، صباحت بھابی کی آج بھی کال آئی تھی وہ بہت یاد کر رہی ہیں۔“ انہوں نے بیٹھ کر اپنے آنے کی غرض بیان کی۔
”ریڈی ہو جائیں آپ، میں چینج کرکے آتا ہوں پانچ منٹ میں۔“ پری کی طرف جانے کا سن کر اس چہرہ کھل اٹھا تھا۔
نامعلوم وہ کیسے عشق میں گرفتار ہو گیا تھا پری کے متعلق سب کچھ جان کر بھی وہ چند دنوں تک اس سے نفرت کرتا رہا تھا پھر وہ نفرت ازخود ہی شیشے پر گری گرد کی طرح صاف ہو گئی تھی۔ وہ اس سے جتنا دور بھاگتی تھی دل اس کی طرف اتنا ہی بڑھتا تھا، عائزہ کے ولیمے میں صرف اس کی موہنی صورت دیکھنے کی خاطر ہی وہ صباحت سے ہامی بھر بیٹھا تھا اور وہاں پری کو نہ پا کر اس کا موڈ اس قدر آف ہوا کہ وہ عادلہ کی بے حد منت و سماجت کے باوجود ڈنر سے پہلے ہی گھر آ گیا اور تب سے اس کا موڈ اتنا خراب تھا کہ وہ زیادہ تر اپنے کمرے میں بند رہنے لگا تھا۔
آفس بھی نہیں جا رہا تھا اس کے موڈ سے سب ہی واقف تھے اس لئے کسی نے بھی اس کو نہیں کہا تھا ویسے بھی وہ بہت اکھڑ مزاج و تند خو طبیعت کا مالک تھا، غیروں میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد وہ روڈ ہو گیا تھا ، کوئی بات مرضی کے خلاف ہو جائے تو سامنے والے کی بے عزتی کرنے میں لمحہ نہیں لگاتا تھا خواہ سامنے اس کے مما پپا کیوں نہ ہوں ، کوئی اس کی زندگی میں مداخلت نہ کرتا تھا ماسوائے اس کی مما کے جو ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کے اکلوتے بیٹے کے پاس چلی آتی تھیں۔
”ڈیٹس گڈ! وہاں جانے کا سن کر تو آپ بالکل فریش ہو گئے ہیں ، کیا خیال ہے پھر میں آج ہی بھابی سے ٓپ کے پروپوزل کا کہہ آؤں؟“ مسز عابدی ایک دم خوش ہو کر شرارتی لہجے میں گویا ہوئیں۔
”ابھی نہیں مما! ابھی مجھے کچھ وقت چاہئے ٹائم آنے پر میں آپ سے خود کہہ دوں گا ، آپ فکر نہیں کریں۔“
”میں کہتی ہوں نیک کام میں دیر کرنا مناسب نہیں ہے۔
“ انہوں نے قدرے سنجیدگی سے کہا تھا۔
”مگر پہلے آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا ، کس کو پرپوز کریں گے پری کو یا عادلہ کو؟“ ان کی بات پر وہ چونک کر گویا ہوا۔
”کیا مطلب ہے آپ کا مما؟ عادلہ کا نام کیوں لے رہی ہیں آپ؟“
”عادلہ کی آپ میں بڑھتی ہوئی دلچسپی میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے پھر آپ بھی اس کو امپورٹنس دے رہے ہیں۔“
”لیکن مما وہ کوئی اسپیشلی امپورٹنس نہیں ہے وہ میری ایسی ہی فرینڈ ہے جس طرح میری اور فرینڈز ہیں ، میں اس سے محبت نہیں کرتا۔
”لیکن عادلہ تو آپ کی فرینڈ شپ کو کوئی اور ہی نام دے بیٹھی ہے اور یہ ہمارے لئے پرابلم ہو جائے گی۔“ وہ فکری مندی سے گویا ہوئیں کہ وہ صباحت و عادلہ کے مزاج کو سمجھنے لگی تھیں صباحت کی آؤ بھگت کے معنی وہ جانتی تھیں۔
”مجھے پرابلمز کو حل کرنا آتا ہے ابھ%D

   1
0 Comments